مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اربعین حسینی کی مناسبت سے 24 اگست کی صبح حزب اللہ کے میزائل اینڈ ڈرون یونٹوں نے شہید فواد شکر کے قتل کے جواب کے پہلے مرحلے میں صیہونی رجیم کے فوجی اور سیکورٹی اہداف کو نشانہ بنایا۔ جس میں 300 سے زیادہ میزائلوں اور درجنوں ڈرونز کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کے شمال اور مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔
عسکری امور کے ماہرین کے مطابق 33 روزہ جنگ کے بعد حزب اللہ کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن کی مثال نہیں ملتی۔
اس کارروائی کے دوران صیہونی حکومت کی بیرکوں اور فوجی ہیڈ کوارٹر کے علاوہ موساد کے ٹھکانوں، شن بیت اور 8200 یونٹ پر بھی حملے کیے گئے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی بحریہ سے تعلق رکھنے والے ایک فریگیٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 6 صہیونی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
سید مقاومت نے اس جوابی اقدام کو "اربعین آپریشن" کا نام دیتے ہوئے اس کی زبردست کامیابی کا اعلان کیا۔
انہوں نے اس آپریشن کے اہم اہداف کے بارے میں کہا کہ جنگ کے آغاز سے ہی حزب اللہ کے پاس عام شہریوں کو نشانہ نہ بنانے جیسے اصول تھے اور اسی وجہ سے اس آپریشن میں صرف فوجی اہداف پر غور کیا جاتا تھا۔
دوسری طرف غاصب رجیم کے حکام ، فوجی کمانڈروں اور عبرانی میڈیا نے جعلی بیانیہ بنا کر شرمناک حد تک جھوٹ پھیلایا۔
صیہونیوں کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ کے حملے کے آغاز سے چند منٹ قبل اس رجیم کے تقریباً 100 طیاروں نے 20 منٹ کے اندر لبنان کے 40 سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا اور حزب اللہ کے تقریباً 6000 میزائلوں کو تباہ کر دیا۔
صیہونی حکومت کے انٹیلی جنس اندازوں کے مطابق بظاہر بن گوریون ہوائی اڈے میں بھی مزاحمتی اہداف موجود ہیں۔
اس دعوے کے جواب میں حزب اللہ کے قریبی لوگوں نے اعلان کیا کہ مزاحمت نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور ایسی خبروں کی اشاعت تل ابیب کے فوجی حکام کی "سنسر شپ" پالیسی کا حصہ ہے، جو میڈیا کو کنٹرول شدہ اور جعلی خبریں فراہم کرتی ہے تاکہ حقائق پر پردہ ڈالا جا سکے اور حزب اللہ کے حملے کے حقیقی نقصانات کو میڈیا میں آنے سے روکا جاسکے۔
اس سے قبل غزہ کی پٹی میں جاری جھڑپوں کے دوران صہیونی فوج کے "سینسر شپ" یونٹ نے القسام بٹالینز کے مقابلے میں صیہونیوں کے جانی نقصان کی اصل تعداد کو جھٹلانے کی کوشش کی۔
صیہونی حکومت کے خلاف لبنان کی اسلامی مزاحمت کے کامیاب آپریشن کے چند گھنٹے بعد، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے مزاحمت کے جوابی ردعمل کے پہلے مرحلے کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی۔
انہوں نے اس نے انتقامی کارروائی میں تاخیر کی وجہ شہید شکر کے قتل کے ردعمل کا وقت اور صہیونیوں کو ایک قسم کے اعصابی دباو میں رکھنے کی پالیسی کو قرار دیا۔
سید مقاومت نے چند ہفتے قبل ضاحیہ کے علاقے پر صیہونی حکومت کے حملے کو "ریڈ لائن" کو عبور کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتقامی کارروائی کے عمل میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ غزہ میں غاصب رجیم کی جارحیت کو روکنے کے لیے مذاکرات کو وقت دینا تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے غاصب رجیم کے گلیلوٹ جاسوسی اڈے اور فوجی یونٹ 8200 کو نشانہ بنانے کو اربعین آپریشن کے اہم اہداف میں سے قرار دیا۔ان کے خیال میں آپریشن کی زبردست رازداری اور دشمن کے بے تکے دعوے تل ابیب رجیم کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے میزائل حملے مزاحمت کے اصل ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک قسم کی جارحانہ کارروائی تھی، جس کا مقصد تل ابیب کے شمال میں واقع موساد کے قتل کی منصوبہ بندی کی جگہ کو نشانہ بنانا تھا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اربعین آپریشن کے ایک اہم سنگ میل کی طرف اشارہ کیا، جو پہلی بار وادی بقاع سے مقبوضہ علاقوں کی طرف ڈرون کا آغاز تھا۔
لبنانی شیعہ رہنما کے مطابق ڈرون لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان مشترکہ سرحد سے پہلے سے طے شدہ اہداف کی جانب بغیر کسی رکاوٹ کے فائر کیے گئے۔ اس سے پہلے یہ رائے عام تھی کہ وادی بقاع میں مزاحمت کے سرجیکل آلات کی میزبانی کا محدود امکان ہے، لیکن لبنانی مزاحمت کی حالیہ کارروائیوں میں یہ غلط مفروضہ باطل ہوگیا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کا ایک اور اہم حصہ مزاحمتی لانچروں کے خلاف اسرائیلی فضائیہ کے انسدادی حملے کے حوالے سے صہیونی میڈیا کے دعوے کا حوالہ تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے مزاحمت کی تندہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے حزب اللہ لبنان کی تمام جنوبی وادیوں کو میزائلوں سے خالی کر چکی تھی اور مزاحمت کے بیلسٹک میزائلوں یا راکٹ لانچروں کو نشانہ بنانے کے بارے میں صیہونیوں کے دعوے درست نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیلسٹک میزائلوں کو نشانہ بنانے کے بارے میں دشمن کے بیانات، سراسر جھوٹ ہیں۔ اسرائیلی راکٹ صرف دو لانچنگ پیڈز پر لگے۔ اس حملے میں UAV لانچ پیڈ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے یہاں تک نشاندہی کی کہ اگر آپریشن کا نتیجہ ناکافی نکلا تو مزاحمت دوبارہ جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ حزب اللہ کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کی طرف سے اس طرح کی سچائی کا اظہار اس لیے ضروری ہے کہ یہ صیہونی حکومت کے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے خلاف مزاحمتی ردعمل کے حقیقی جہتوں کو ظاہر کر سکتا ہے اور نیتن یاہو کو "بیانئے کی جنگ" میں کمزور پوزیشن میں ڈال سکتا ہے۔
نیز، اس طرح کے بیانات دینے سے صیہونیوں کی نفسیاتی سکیورٹی کی حد مزید کم ہوتی ہے اور یہ حزب اللہ کے حملوں کے خلاف تل ابیب کے ملٹری انٹیلی جنس مراکز کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
نتیجہ
دشمن کے ریڈار سسٹم، سیٹلائٹ مانیٹرنگ اور جاسوسی کی سرگرمیوں کی مکمل چوکسی کے باوجود لبنانی حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کے پہلے مرحلے کو کامیابی سے مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
مقبوضہ گولان سے تل ابیب تک میں حزب اللہ کے اہداف تھے جن پر کامیابی سے حملہ کیا گیا۔
"اربعین" آپریشن نے ثابت کیا کہ صیہونی حکومت کی سیکورٹی انٹیلی جنس نہ صرف مزاحمتی کارروائیوں کو روک نہیں سکی بلکہ وہ مزاحمتی میزائلوں اور ڈرونز کے لیے آسان ہدف بھی ہے۔
اس حملے کے دوران نافیہ زیف میزائل لانچنگ پیڈ، جعتون اڈہ، میرون ملٹری بیس، الزورہ بیس، گیلیلوت بیس، سہل بیس، کیلع ملٹری ہیڈ کوارٹر، یواف ملٹری ہیڈ کوارٹر، نفاح بیس، یاردن بیس، راموت نفتالی بیس اور عین زی تیم کو نشانہ بنایا گیا۔
موجودہ صورت حال میں لبنان کی حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ سینئر کمانڈر کے قتل کے جوابی ردعمل کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا ہے، لیکن اگر نیتن یاہو اب بھی جنوبی لبنان پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو انہیں بڑے پیمانے پر مزاحمتی حملوں کے نئے دور کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا دفاعی نظام مزاحمتی میزائلوں اور ڈرونز کی ایک بڑی مقدار سے موثر انداز میں نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور کسی بھی ممکنہ تصادم میں سپرائز مزاحمت کے ہاتھ میں ہوگا۔
آپ کا تبصرہ